میں تجھے چاہتا نہیں لیکن
پھر بھی جب پاس تو نہیں
خود کو کتنا اداس پاتا ہوں
گم سے اپنے حواس پاتا ہوں
جانے کیا دھن سمائی رہتی ہے
اک خاموشی سی چھائی رہتی ہے
دل سے بھی گفتگو نہیں ہوتی
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن
پھر بھی رہ رہ میرے کانوں میں
گونجتی ہے تیری حسین آواز
جیسے نادیدہ کوئی بجتا ساز
ہر صدا ناگوار ہوتی ہے ان
سکوت آشنا مزانوں میں
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن
شب کی طویل خلوت میں
تیرے اوقات سوچتا ہوں
تیری ہر بات سوچتا ہوں
کون سے پھول تجھ کو بھاتے ہیں
رنگ کیا کیا پسند آتے ہیں
کھو سا جاتا ہوں کھو سا جاتا
ہوں تیری جنت میں
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن
کسی احساس سے نجات نہیں
سوچتا ہوں تو رنج ہوتا ہے
دل کو جیسے کوئی ڈھونڈتا ہے
جس کو اس درجہ چاہتا ہوں
اس میں تیری سی کوئی بات نہیں
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن