ادھر لائو ،قلم مجھ کو دو
کچھ کرو بندو بست،کچھ ورق مجھ کو دو
روشنائی بھی نہیں سیاہی بھی تو کیا
خون حاضر ہے میرا ، بس لکھنے کچھ مجھ کو دو
برباد تو ہو ہی گیا ہوں میں
تو کچھ پل کرنے ماتم مجھ کو دو
یار گیا،دلدار گیا، گیا پیار بھی
بچا میں ہوں بس جانے مجھ کو دو
لگایا تھا دل کسی بے وفا سے
ٹوٹنا تو تھا ہی ، ٹوٹنے مجھ کو دو
آیا تھا زندگی میں کسی طوفاں کی طرح
تھمنا تو تھا ہی ، باقی بکھرنے مجھ کو دو
آ کے بسا دی زندگانی میری اس نے
بعد اس کے ہونی تو تھی ویرانی
اسی میں سسکنے اب مجھ کو دو
خواب دکھائے کیا کیا اس نے ، دکھائے تو توڑے بھی اس نے
نہ شکایت کرنے اب مجھ کو دو
جینے کی تھی تمنا ،سکھا دیا اس نے احمد جینا
بن اسکے، بن اپنے ، بن سپنے جینے اب مجھ کو دو