اِذنِ رَبی سے جام چلتا ہے
حَشر تک اِہتمام چلتا ہے
جام سے پہلے جام چکھتے ہیں
جام کے بعد جام چلتا ہے
جَب تلک عام لوگ مرتے رہیں
تَب تلک قتلِ عام چلتا ہے
جان چھُوٹی نہ جان جانے سے
جِسم سے اِنتقام چلتا ہے
مَردِ دَرویش گر ٹھہر جائے!
اُس کی جانب مَقام چلتا ہے
ہرنیاں اُس پہ ناز کرتی ہیں
آہ! کیا خوش خرام چلتا ہے
ساتھ اُن کے کنیز آئے گی
ساتھ میرے غلام چلتا ہے
دُنیا میں اور کچھ چلے نہ چلے
حُسن کا اِحترام چلتا ہے
حُسن دَھڑکن ہے رازِ ہستی کی
یہ چلے تو نظام چلتا ہے
اِک حسینہ نے شعر لکھے ہیں!
قیس کا صرف نام چلتا ہے
شہزاد قیس کی کتاب "لیلٰی" سے انتخاب