ارے پاگل بھلا ایسی وفائیں کون دیتا ہے
تہہ خنجر جھکا کر سر دعائیں کون دیتا ہے
ہے اکثر جھانک کر دیکھا نظر کوئ نہیں آتا
نجانے رات بھر مجھ کو صدائیں کون دیتا ہے
اسے رازق نہ مانو پر مجھے تم اتنا بتلا دو
تہہ پتھر میں کیڑوں کو غذائیں کون دیتا ہے
مری جاں اپنے ہاتھوں پر حنا کو خود سجاؤ تم
بھلا اپنی ہتھیلی کی حنائیں کون دیتا ہے
یہی تو فاختہ کو سوچ کھاۓ جا رہی کہ
بہانہ کر کے جگنو کا ضیائیں کون دیتا ہے
مرا قاتل بیچارہ ایک مدت سے پریشاں ہے
مجھے آخر یہ جینے کی دعائیں کون دیتا ہے
مجھے باقرؔ مسیحا سے فقط یہ پوچھنا ہے کہ
شہر میں غم کے ماروں دوائیں کون دیتا ہے