استغراق و محویت رقص و وجد و ہال نہیں
بزمِ زاہد میں، مے خانے جیسا جمال نہیں
جسم و جاں میں آتش بھر دے دل کو بسمل کر دے
ناصح تیری باتوں میں ایسا بھی اوج و کمال نہیں
ناپختہ عشاق عبث قسمت کو روتے رہتے ہیں
ہائے اپنی قسمت میں ہجر تو ہے وصال نہیں
جَز کا کَل میں گَم ہو جانا عشقِ صادق ہوتا ہے
اوجِ عشقِ صادق وہ ہے جِسے کبھی زوال نہیں
خارجی صدموں کے آگے سینہ سپر رہنے والی
پاکیزہ روح سے بہتر کوئی بدن کی ڈھال نہیں
خلقِ خَدا کی خدمت میں خالق راضی خلقت خوش
آزمایا ہوا گَر ہے یہ کوئی خود ساختہ چال نہیں
دِل گرِفتہ ہونے سے عظمٰی یہ بچائے رکھتی ہے
مثبت سوچ کی عادت ہے بس میرا کوئی کمال نہیں