اسکی گلی میں داد وفا ڈھونڈ رہا ہوں
نادان ہوں پتھر میں خدا ڈھونڈ رہا ہوں
ہر سمت نظر آتی ہے لو کی آوارگی
خوشبو سے بھری تازہ ہوا ڈھونڈ رہا ہوں
ہاتھوں کی لکیروں میں سر راہ بہاراں
میں کھوئی ہوئی اپنی دعا ڈھونڈ رہا ہوں
تعبیر لے اڑی ہے تمنا کی لذتیں
لوہ جنوں پہ خواب نیا ڈھونڈ رہا ہوں
صحرا کی وحشتوں میں کبھی نوک تیر پر
کس کس جگہ میں اپنی خطاڈھونڈ رہا ہوں
ہاں میں نے جائے ہیں دئیے شوق وفا کے
یونہی تو نہیں تلخ سزا ڈھونڈ رہا ہوں
وہ کب کا اپنی راہ بدل کر چلا گیا
نقش قدم پہ کس کے انا ڈھونڈ رہا ہوں
ہاتھوں کی کٹی انگلیاں کب پیش نظر ہیں
دامن پہ زلیخا کا گلہ ڈھونڈ رہا ہوں
اشعار کے دریا میں کبھی ڈوب کے دیکھو
شاید تیری خاموش ندا ڈھونڈ رہا ہوں