ہر انگ سے اک رنگ نیا پھوٹ رہا ہے
یوں موسم بہار میں اک زخم چھڑا ہے
مدت سے میرے خواب کی تعبیر چرا کے
وہ غیر کے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا ہے
پہنچا جو اسکے شہر میں ۔ بولی یہ ہوائیں
شاید سمے کی آنکھ سے اک اشک گرا ہے
ہیں کس کی دسترس میں نہاں منزلوں کے بھید
بھٹکا ہوا خیال کسے ڈھونڈ رہا ہے
پامال ہوا ہوں تو نہیں اس میں تکلف
اے رشک گلستان میرا جرم وفا ہے
اسکے لب و رخسار کو کہتے ہیں زندگی
اسکے دم گفتار میں سانسوں کا پتہ ہے