اسے تنہا بلکتا چھوڑ آیا
میں دل میں زخم بھرتا چھوڑ آيا
جو حصہ بن کے تھا میری ہنسی کا
اسے چوکھٹ پہ روتا چھوڑ آيا
جسے میں چومتاتھا یار جی بھر
اسی آنکھوں میں دریا چھوڑ آيا
تمہارے ساتھ رہنے کےلیئے ہی
نہ جانے آج کیا کیا چھوڑ آيا
چلاہوں جانب منزل میں لیکن
دیا آنگن میں جلتا چھوڑ آيا
کہ پھر ملنے کے خاطر عکس اپنا
تیرے شیشے میں رکھا چھوڑ آيا
جسے اب یاد کر کے ہوں پشیماں
وہ صحرا وہ علاقہ چھوڑ آيا
کڑکتی دھوپ میں بادل کریمی
کہی پر میں برستا چھوڑ آيا