سزا وفا کی ملے گی یہ طے ہوا کب تھا
شروع شروع میں محبت سے دکھ ملا کب تھا
میں خواب زار کا باسی، سراب میں ہی رہا
حقیقتوں سے تعارف کا حوصلہ کب تھا
نظر نظر میں ہی صدیوں کے فیصلے ہوں گے
نگاہِ یار کو اس بات کا پتہ کب تھا
وہ ایک شخص مری چاہتوں کا مارا ہوا
اسے سماج کی شرطوں سے واسطہ کب تھا