اسے شاید نہیں رغبت مرے اجڑے مقدر کی
خبر رکھتا ہے دنیا میں ہمیشہ سے جو گھر گھر کی
انا بھی ہے خودی بھی ہے مری اپنی طبعیت میں
جدائی مار دیتی ہے مجھے اپنے ہی رہبر کی
میں لوگوں کے لیے اب عامیانہ شعر کہتی ہوں
میں اب امید رکھتی ہی نہیں ہوں آپ سے شر کی
نئی کچھ بات کہنے کے لیے بے چین رہتی ہوں
مرے فن کو ملی ہے اب تو گہرائی سمندر کی
گریباں چاک ہے سب کا مگر کس کو خبر ہے یہ
کہ باتیں کر رہا ہے ہر کوئی میدانِ محشر کی
غریبوں سے تو ان کی مفلسی نے زندگی چھینی
‛‛کہ طاقت اڑ گئی ‛اڑنے سے پہلے میرے شہپر کی‛‛
نجانے کتنے موسم زندگی میں تیرے بعد آئے
میں کیوں یہ ٹھوکریں کھاؤں زمانے تیرے در در کی