اسے کہنا کہ لوٹ جائے وہ کہ رگ جاں اب کہن زدہ سی ہے خوابوں کے پنچھی سبھی اڑ چکے ہیں اب بے رنگ ہوچکی ہیں یہ آنکھیں میری در انتظار پر قفل ہیں پڑے ہر سو بس اب خامشی کی آہٹ ہے