تنہائی کو سینے سے لگا رکھا ہے کب سے اس بزم محبت میں یہ کس دام کے بدلے اے وشمہ مجھے اپنی نگاہوں سے پلا دو حاضر ہے مری جان بھی اک جام کے بدلے