اس طرح خود کو محبت کی سزا دیتی ہوں
نام لکھتی ہوں ترا، لکھ کے مٹا دیتی ہوں
نام لیتے نہیں رکنے کا یہ آنسو میرے
تب تیرے نام کی محفل میں سجا دیتی ہوں
یہ الگ بات کہ تجھ تک نہیں پہنچی لیکن
میں کئی بار تجھے دل سے صدا دیتی ہوں
بس اسی سوچ میں بیٹھی ہوں کہ تُو آئیگا
روز دہلیز پہ پلکیں میں بچھا دیتی ہوں
فلسفہ کیا ہے محبت کا یہ جانا جب سے
تب سے پتھر کو بھی میں ہیرا بنا دیتی ہوں
پوچھتے رہتے ہیں مجھ سے سب ارباب سخن
کس طرح غم کو تبسم میں چھپا دیتی ہوں