وہ ابر چشم زیست کی پرچھائیوں میں تھا
رقصِ حیات آج بھی تنہائیوں میں تھا
اس نے مرے خیال کو یکسر مٹا دیا
جو لٖفظ لٖفظ میری شناسائیوں میں تھا
تجھ کو میں کیا بتاؤں محبت کی راہ مٰٰیں
جو لطف اس پیار کی رسوائیوں میں تھا
چمٹا ہوا ہے آج بھی میرے وجود سے
نشہ جو تیرے حسن کی رعنائیوں میں تھا
گونجا ہے درد بن کے جو دل کے مکان میں
وہ گیت تیرے پیار کی شہنائیوں مین تھا
ڈوبی ہوئی ہوں آج بھی جس لہرِ عشق میں
منظر وہ تیری آنکھ کی گہرائیوں میں تھا