ہم بھی کچھ عجیب سے تھے
وقت بھی کچھ سازگار نہ تھا
تھوڑے اکھڑ تھے ہم
کچھ انا نے بھی تھام رکھا تھا
دل کو یوں بے لگام چھوڑنا بھی گوارہ نہ تھا
سادہ سی طبعیت ہماری
اور آوارگی کا جام بھی کبھی پیا نہ تھا
نظروں کا پیام بھی اس سے پہلے پڑھا نہ تھا
اسے طلب ہماری تھی
ہمیں اپنی خودی پیاری تھی
الفت کے یہ رنگ ڈھنگ
ہماری سمجھ سے بالاتر تھے
کچھ طبعیت ہی ہم نے پاکیزہ پائی تھی
اس کی بے باک نظروں کو یہ کہاں گوارہ تھا
بات یہیں پر آکر پھر ختم ہوگئی تھی
یہ نہ الفت تھی نہ جھکاؤ تھا
خیر جو بھی جذبہ تھا
آخر اپنے انجام کو پہنچ کر
اپنی موت آپ مر چکا تھا