اس کی یادوں کو سنبھال رکھا ہے
اس کی جدائی کا غم پال رکھا ہے
ابھی تک کسی میں پھنسےنہیں ہیں
جورقیبوں نےقدم قدم پہ جال رکھا ہے
اسے شکوےکرنے کی عادت ہو گئی ہے
ورنہ ہم نے اس کا بڑا خیال رکھا ہے
وہ آئےگا تو اس کا سب کچھ لٹا دوں گا
امانت کی طرح اس کادرد سنبھال رکھاہے
عید کے دن میرےگھر آنےکا عدہ کرکے
کئی سال سے جھوٹےوعدوں پہ ٹال رکھا ہے