اس کے جانے کے بعد ہی
خاموش زندگی بہت ہوگئی ہے
وہ یاد تو بہت آتا ہے
پر دیر بہت ہوگئی ہے
جلتے احساس کے دامن میں
تپش بھی بہت ہو گئی ہے
راکھ ہوتے جذبوں میں
چنگاری بہت ہوگئی ہے
خٰواب سی زندگی ہے اور
برف سی عمر بہت ہوگئی ہے
میرے آتشی آنچل میں
سفئیدی بھی بہت ہوگئی ہے