اس ایک قطرے کا دریا پر انکشاف بھی کر
مجھے پہن توں میرے دل میں اعتکاف بھی کر
مجھے پسند کیا ہے تو اعتراف بھی کر
یہ گرد آئینہ دست نہیں صاف بھی کر
میرے لئے توں زمانے سے اختلاف بھی کر
نکل عدم سے ذرا خود سے انحراف بھی کر
اسی چراغ کا پر عمر بھر طواف بھی کر
کبھی تو بات کوئی ضبط کے خلاف بھی کر