بیتاب و مضطرب تھا تمھارے فراق میں
کیا کیا مزے اُڑائے مگر اشتیاق میں
تمہید ہیں یہ اشک میرے حالِ زار کے
پوشیدہ چوٹ ہے کچھ سیاق وسباق میں
اُلفت کا بزمِ عام میں شہرہ کریں روا
مشرب میں بات ہے یہ نہ اپنے مذاق میں
راہِ وفا میں عزت و ناموس کا دھیان
یہ سوچ پہلے روز ہی بالائے طاق میں
فیصلؔ تمھاری یاد کے قابل کبھی نہ تھا
دولت یہ ہاتھ اپنے لگی اتفاق میں