اظہار محبت ہم سے روز کرتی رہتی ہے اور
آج مجھے روتا چھوڑ کے سیر پر گیؑ ہے
عید کی تیاری خوب چل رہی تھی اس کی اور
آج وہ سنگ غیر کے سمندر پر گیؑ ہے
کہتی تھی کہو تم تو نہیں جاتی میں گھومنے
کیوں روکتا میں اسے جو نہانے سمندر پر گٰیؑ ہے
سولہ برس زندگی کے لوٹانے پر بھی خوش نہیں
اس وقت گزار کا دل بہلانے سمندر پر گیؑ ہے
کچھ دن تو خاموش رہی پر آنکھوں میں کچھ تھ
لگتا تھا دل میں کوئی بات چھپی رہ گئی ہے
ہم جس کے فسانے میں جیتے رہے برسوں
وہ آج کسی اور کی کہانی کہہ گئی ہے
میں خواب سجائے بیٹھا تھا عید کے لمحوں کے
اور وہ میری نیندیں چرا کے ساحل پہ گئی ہے
تصویر میں اب بھی وہ ویسی ہی لگتی ہے
بس آنکھوں کی چمک کسی اور کے نام کی ہے
اب شہر کے رستوں سے دل ڈرنے لگا ہے
جہاں جہاں اُس کے قدموں کی گرد چھپی ہے
دکھ صرف اتنا ہے جانتی تھی کویؑ نہیں ہے میر
پھر بھی وہ غیر کا دل سہلانے سمندر پر گیؑ ہے