تجھ کو پاس وفا ذرا نہ ہوا
ہم سے پھر بھی ترا گلہ نہ ہوا
ایسے بگڑے کہ پھر جفا بھی نہ کی
دشمنی کا بھی حق ادا نہ ہوا
کٹ گئی احتیاط عشق میں عمر
ہم سے ا ظہار مدعا نہ ہوا
حیف ہے اس کی بادشاہی پر
تیرے کوچے کا جو گدا نہ ہوا
چھڑ گئی جب جمال یار کی بات
ختم تا دیر سلسلہ نہ ہوا
ہو کے بے خود کلام حسرت سے
آج غالب غزل سرا نہ ہوا