تمہارا ذکر جو وہ بار بار کرتے ہیں
ستم یہ مجھ پہ میرے غمگسار کرتے ہیں
یہ جان کر بھی کہ وعدہ وفا نہیں ہوگا
ہم ان کی بات پہ کیوں اعتبار کرتے ہیں
یہ اور بات کہ اظہار مدعا نہ ہوا
ارادہ ویسے تو ہم بار بار کرتے ہیں
نہیں ہے گردش دوراں پر اختیار مگر
دعا ہم ان کیلئے بے شمار کرتے ہیں
یہ مان لیجے سکوں سے وہ رہ نہیں سکتے
جو لوگ اپنے مصائب شمار کرتے ہیں
ہے ان کو دعویٰ کہ ہیں انقلاب کے داعی
یہی ہے سچ تو چلو انتظار کرتے ہیں
بھلا وہ کیسے دکھائیں گے سیدھی راہ ہمیں
جو خود حرم میں بھی فطرے شمار کرتے ہیں
تجھے ڈبوئے گی یہ سادگی تری یاسر
عبث یہ زعم کہ وہ تجھ سے پیار کرتے ہیں ۔۔۔