افسوس کہ مجھے اندازِ محبت نبھانا نہ آیا
ہم تو یونہی روٹھے تھے تجھے منانا نا آیا
کیا کرو گے سارے شہر کو روشن کر کے
خود تیرے گھر میں اندھیرا ہے دیا جلانا نا آیا
جرم محبت میں برسا رہا تھا سارا شہر پتھر
ارے تیرے ہاتھ میں بھی تھا پتھر مگر برسانا نہ آیا
میری چیخوں سے تڑپ اٹھتے ہیں ساگر شہر کے باسی
مگر اس بے وفا کو دل پہ مرہم لگانا نہ آیا