الجھے الجھے دھاگے دھاگے سے پڑھے تقدیر پر
ہوگئی ہوں ان دنوں میں تاروں کی تدبیر پر
کب بھلا دن میں نظر آتا ہے درد و غم کا نور
اہل غم کے دل سے پوچھے کوئی بے تاثیر پر
ہو بھی لوں ناراض لیکن کچھ تو مجھ کو آس ہو
رنجشیں ساری بھلا کر آئے گا تحریر پر
چھپ سکا دنیا کی نظروں سے نہ میرا عشق بھی
وہ برا کہتے ہیں مجھ کو اور میں تقدیر پر
یہ مرا احساس ہے یا جبر موسم کا اثر
اب کی رت مہکے نہیں گل پچھلے یہ تنویر پر
دشت غم میں آندھیوں کے وار سہنے کے لئے
خشک پتے اٹھ رہے ہیں آج اپنے پیر پر
روز ملتا ہےنئے حلیے سے وہ وشمہ تجھے
پھیلتا سایہ ہے جیسے اک تری تصویر پر