اس کی انا نے اسےکبھی آنے نہیں دیا
میری انا نے بھی اسے بلانے نہیں دیا
ہم نے بھی سر جھکا دیا خاموش ہوگئے
اس طرح اسےہاتھ چھڑانے نہیں دیا
جن سے رہی عمر بھرہاتھ ملانے کی آرزو
اس نے کبھی ہاتھ بڑھانے نہیں دیا
اب اس قدر بھی دور نہ تھا اس کا گھر مگر
جانے کس بات نے اسے آنے نہیں دیا
ترکِ تعلقات میں ممکن تھا سب مگر
ہم نےتیرے نشاں کو مٹانے نہیں دیا
طوفان سے الجھتے رہے ہم جس کے واسطے
خود اس نے ایک چراغ جلانے نہیں دیا
میں چپ رہا روتا رہا پتھر بنا رہا
الزام تم پر ایک بھی آنے نہیں دیا