اللہ جانے کیا ہوگا ذکر جو چلا ہے
آئی رات یاد لیکر فکر جو چلا ہے
تجھے ہے قسم اس کو کبھی نہ رلانا
سہارے کی انگلیاں پکڑ جو چلا ہے
خدا کرے کہ ان کو ٹھکانہ ملے کوئی
اپنی مرضی سے ہی مُکر جو چلا ہے
پھر اس تصور میں کیا تصویر پائیں
ٹھہرے پانی میں پتھر جو چلا ہے
ابکہ وہ خاموش بھی کیسے رہے گا
آنکھوں میں کچھ آنسو بھر جو چلا ہے
تیری گھر کی چؤکھٹ پر آ رکا تھا
کبھی جاگر دیکھئے کہ وہ کدھر کو چلا ہے