زخم ِامید بھر گیا شاید
درد حد سے گذر گیا شاید
تھا دل و جاں سے بھی پیارا وہ
میرے اندر جو مر گیا شاید
اب تو ملنے بھی گھر نہیں آتا
وہ محبت سے ڈر گیا شاید
اپنا گھر مجھ کو اب نہیں ملتا
ہو کے مایوس گر گیا شاید
کیوں اب اک آنکھ بھی نہیں بھاتا
میری نظروں سے گر گیا شاید
وعدہ کر کے بھی وہ نہیں آیا
اپنے وعدے سے پھر گیا شاید
میرے شانوں پہ سر کو رکھا تھا
مرنے والا تھا مر گیا شاید