بڑا آسان ہے اظہار، بس کہہ دوں کہ چاہت ہے
نہیں ممکن ابھی جاناں، کہوں تُم سے محبت ہے
جڑے مجھ سے کئی اپنے، جڑے مجھ سے کئی سکھ ہیں
مرے ذمے کئی باتیں ، مرے ذمے کئی دکھ ہیں
مجھے پھر سوچنا ہو گا، کہیں ظاہر نہ ہو جائیں
جو اندر کی ہیں سب باتیں ، کہیں باہر نہ ہو جائیں
دبے قدموں، جھکی نظروں، میں تیری اور بڑھتا ہوں
تری نظروں میں لکھے سب سوالوں کو میں پڑھتا ہوں
مجھے ڈر ہے مری آنکھیں کہیں وہ راز نہ کھولیں
مِجھے چپ دیکھ کر نظریں مری یہ چیخ کر بولیں
مجھے پھر سوچنا ہو گا، کہیں ظاہر نہ ہو جائیں
جو اندر کی ہیں سب باتیں ، کہیں باہر نہ ہو جائیں
کسی بھی ایک پلڑے میں جھکاؤ، کس قدر مشکل
فرائض اور محبت میں چناو، کس قدر مشکل
سمجھتے سوچتے یہ زندگی ہی بیت نہ جائے
فرائض ہار نہ جائیں، محبت جیت نہ جائے
مجھے پھر سوچنا ہو گا، کہیں ظاہر نہ ہو جائیں
جو اندر کی ہیں سب باتیں ، کہیں باہر نہ ہو جائیں
مری پتھر نگاہوں میں کبھی آنسو نہیں ہوتے
گلے میں جا کے گرتے ہیں ، مری پلکیں نہیں دھوتے
مجھے کہنے سے پہلے اور کچھ دن سوچنا ہو گا
دسمبر کٹ ہی جائے گا یہ تُم بن ، سوچنا ہو گا
مجھے پھر سوچنا ہو گا، کہیں ظاہر نہ ہو جائیں
جو اندر کی ہیں سب باتیں ، کہیں باہر نہ ہو جائیں