اندر کی باتیں
Poet: azharm By: Azhar, Dohaبڑا آسان ہے اظہار، بس کہہ دوں کہ چاہت ہے
نہیں ممکن ابھی جاناں، کہوں تُم سے محبت ہے
جڑے مجھ سے کئی اپنے، جڑے مجھ سے کئی سکھ ہیں
مرے ذمے کئی باتیں ، مرے ذمے کئی دکھ ہیں
مجھے پھر سوچنا ہو گا، کہیں ظاہر نہ ہو جائیں
جو اندر کی ہیں سب باتیں ، کہیں باہر نہ ہو جائیں
دبے قدموں، جھکی نظروں، میں تیری اور بڑھتا ہوں
تری نظروں میں لکھے سب سوالوں کو میں پڑھتا ہوں
مجھے ڈر ہے مری آنکھیں کہیں وہ راز نہ کھولیں
مِجھے چپ دیکھ کر نظریں مری یہ چیخ کر بولیں
مجھے پھر سوچنا ہو گا، کہیں ظاہر نہ ہو جائیں
جو اندر کی ہیں سب باتیں ، کہیں باہر نہ ہو جائیں
کسی بھی ایک پلڑے میں جھکاؤ، کس قدر مشکل
فرائض اور محبت میں چناو، کس قدر مشکل
سمجھتے سوچتے یہ زندگی ہی بیت نہ جائے
فرائض ہار نہ جائیں، محبت جیت نہ جائے
مجھے پھر سوچنا ہو گا، کہیں ظاہر نہ ہو جائیں
جو اندر کی ہیں سب باتیں ، کہیں باہر نہ ہو جائیں
مری پتھر نگاہوں میں کبھی آنسو نہیں ہوتے
گلے میں جا کے گرتے ہیں ، مری پلکیں نہیں دھوتے
مجھے کہنے سے پہلے اور کچھ دن سوچنا ہو گا
دسمبر کٹ ہی جائے گا یہ تُم بن ، سوچنا ہو گا
مجھے پھر سوچنا ہو گا، کہیں ظاہر نہ ہو جائیں
جو اندر کی ہیں سب باتیں ، کہیں باہر نہ ہو جائیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






