انگڑائی لے کے مجھ سے
Poet: By: Peerzada Arshad Ali Kulzum, harrisburg pa usaانگڑائی لے کے مجھ سے رات نہ لیے جدائی ہاں
پیاری ہے مجھے اے شب تیری تنہائی ہاں
تم کیا سمجھو کیا تم جانے بس اب رہنے دو
چاہے دل کے تکڑے ہزار ہوں پر ہونا رسوائی ہاں
اڑتے اڑتے تھک بیٹھے ییں وہ پنچھی بھی ہاں اب
اب کہاں تک پیچھا کرے گا آ صیاد ہرجائی ہاں
وصل کی رات جانے کیوں ضد تھی ان کوجانے کی
وقت سے پہلے ڈوبا تارا ہوئی تاروں کی بھلائی ہاں
آنکھ مچولی کھیلتے ہیں جگنوں پیارے پیارے سے
ہم بس ٹھہرے اک مسافر کیوں نہ ہوں ان کے شیدائی ہاں
توبہ توبہ یہ کیا ہوا بھرا جام گر کے ٹوٹ گیا
جلدی سے جا کے ٹکڑے اٹھاؤ کیا کہی گی خدائی ہاں
آواز روتے روتے بیٹھ گی رولانا نہ اور اب
تم سمجھ کے بھی نہ سمجھو کے میری بات الہی ہاں
دیکھو بس اب رہنے دو نہ دو بڑھاواہ باتوں کو
قسم سے جایں گے ہم روٹھ اگر پھر قسم اٹھائی ہاں
وقت کے بہتے سمندر کا علی کوئی کنارا ہی نہیں
تم بھی سمجھو اور انہیں بھی سمجھاؤں اس میں ہے دانائی ہاں






