ان مد بھری آنکھوںں سے پھر آنکھیں لڑانا ہے مجھے
ان مخملیں رخساروں سے لبوں کو لگانا ہے مجھے
دل کا پیغام ، بادنسیم تجھے پہنچایا کہ نہیں
اک ساغر شراب کا بھیج کہ لہو سے ملاانا ہے مجھے
آتا ہے تیر و خنجر و سنان سے لیس ہو کر
آج اک دیوار آہن سے جا ٹکرانا ہے مجھے
آرزوۓدل عیش کر کہ دل تمھارا تو ہے
پروان مثل شہزاد٥ تجھے چڑھانا ہے مجھے
یہ خون جگر یہ دل و دماغ کی دولتیں
متاعِ حیات سب تجھ پہ لٹانا ہے مجھے
ڈوب جانے سے پہلے ستار٥ٔ تقدیر
اس سوئ ہوئ قسمت کو جگانا ہے مجھے
حافظ کو نہیں آتے ہیں دورِ جدید کے تقاضے
پسند محبّت کا تو اندازِ پرانا ہے مجھے