ان کی خفائی نہ سمجھ سکی کہ وفا کیا تھی
پھر آرزو کو پوچھو تمہاری منشا کیا تھی
تو ساخت راہوں سے چلتا بھی آیا
لیکن تیری زندگی کی مدعا کیا تھی
میں ایک مرہم کیلئے بھی مرچکا ہوں
میرے جیون کو بھی اور دعا کیا تھی
چھوڑو اداؤں کو کوئی کردار تو سنبھالیں
اُن کی آنکھ میں بسی رہی آشا کیا تھی
احساس اور فکر کا ضابطہ کس کو کہیں
جو غم پہ غم اٹھے ان کی اِنشا کیا تھی
یہ عشق بھی قابل تقلید نہیں ہوتا
لیکن ہر محبت کے پیچھے استدعا کیا تھی