ان کے حسن و شباب کی باتیں
اختر و ماہتاب کی باتیں
اس رخِ بے نقاب کی باتیں
جیسے ہوں آفتاب کی باتیں
پی کے الفت کا جام نظروں سے
ہم تو بھولے شراب کی باتیں
خواہشِ دید دل میں رہتی ہے
یہ بھی ہیں اضطراب کی باتیں
گفتگو ہم سے غیر پر نظریں
کون سمجھے جناب کی باتیں
غیر پر ہے نوازشِ بے جا
ہم سے ہیں احتساب کی باتیں
مجھ کو بیگانہ کہہ دیا تم نے
کرتے ہو کیوں عذاب کی باتیں
شیخ کرتا ہے برسرِ منبر
حور و غلماں ، شراب کی باتیں
ہم کہ خود کو بدل نہیں سکتے
کرتے ہیں انقلاب کی باتیں
بیٹھ کر ان کے روبرو یاسر
لب پہ ہیں اجتناب کی باتیں