زمیں واقف ہے نہ آسماں اور تنہا میرا چاند عاصم
خوش خوش ہے سارا جہاں اور تنہا میرا چاند عاصم
نظر کے سامنے ہیں کھلے ھوئے پھول کیسےکیسے
یہ مچلتی بہاروں کا سماں اور تنہا میرا چاند عاصم
ھر اک سمت ہے مہرووفا کا سمندر موجزن
رت چاہت کی ہے جواں اور تنہا میرا چاند عاصم
یہ سوچ کے کانپ اٹھتا ھوں فصل بہار میں
سجی ہے بزم دوستاں اور تنہا میرا چاند عاصم
دن گزرے گا کیسے رات کٹے گی پرائے شہر میں
پرائے ہیں سارے لوگ وہاں اور تنہا میرا چاند عاصم
پھر نئی چوٹ لگی ہے پھر پرانے زخم جاگے ہیں
ھوں میں بھی بہت پریشاں اور تنہا میرا چاند عاصم
یہ خیال مجھے سونے نہیں دیتا کسی کروٹ شب بھر
بیت چکا ہے وقت خزاں اور تنہا میرا چاند عاصم