اور کر پیار کے میسج ابھی کل رہنے دے
آئے مشکل سے ہیں دوچار یہ پل رہنے دے
پھر بنا لینا کبھی پیار کے افسانے تم
اپنے جذبات کو رکھ قابو میں تھل رہنے دے
خون سے لکھ ابھی کاغذ پہ مجھے خط جاناں
فون سے کر دے ڈلیٹ اپنے غزل رہنے دے
رہتے ان بکس میں میسج نہیں لکھ کاغذ پر
زیست بھر اپنی نشانی کے پل رہنے دے
جھونپڑی میرے لیے یار غنیمت ہی ہے
مت بنا میرے لیے کوئی محل رہنے دے
بن کرونا ہی اذیت ہے گیا سب کے لیے
آئے دشوار ہیں حالات سنبھل رہنے دے
مل رہا ہے جو اسے کھا کے غنیمت ہی سمجھ
کھا ہی لینا یہ کبھی بعد میں پھل رہنے دے
پھر کروفر نہیں توقیر رہے گی تیری
خود کو شہزاد ابھی مت ہی بدل رہنے دے