تیری آس میں ہو گئی میں بدنام کتنا
کیا جانے‘ پی ڈالا ہجر کا جام کتنا
تھے آنسو جتنے بھی دھوپوں میں تارے بنتے
کر ڈالا میں نے اُنہیں سلام کتنا
ہزاروں خواب سجائے تھے آنکھوں نے
کیا تھا تیرے آنے کا انتظام کتنا
دیکھ سکو تو دیکھ لو میری راتوں کو
تھی اُن میں تشنگی کتنی‘ آرام کتنا؟
بھولی دُنیا میں تجھے یاد کرتے کرتے
ورنہ زندگی سے تھا مجھے کام کتنا
رستے میں ہی ہمیشہ کھو جاتی تھیں
بیجھ دیا ہواؤں کے ہاتھ پیغام کتنا