او حسیں زلفوں والے آج کہاں چلے
کس کے پاس چھوڑ کے مری جاں چلے
آ دیکھ تو سہی کس طرح اور کیسے
تیرے بن وہ اُجڑے کارواں چلے
یہ کہاں کی روایت ہے اے دوستو
جو لوٹ کے خانائے دل کو مہماں چلے
روند کے قدموں میں دلِ مضطرب کو
کچھ اس شان سے حکم راں چلے
سارے راز حلقئہ احباب میں وہ
افشا کر کے ہمارے رازداں چلے
صدمئہ فراق تھا تبھی تو آنکھوں سے
اُن کا نام لیتے ہی سیلِ رواں چلے