شہر، گلیاں، نگر، تمام اُداس
چاند، تارے اُداس، شام اُداس
صبح سے شام کا نظام اُداس
تیرا وہ آخری سلام اُداس
کیا تغیّر ہے تیرے جانے سے
شہر بھر کاٹنے کو دوڑتا ہے
ہر گلی اُنگلیاں اُٹھاتی ہے
ہم نے سوچا کبھی نہ تھا لیکن
اَب تِری یاد بھی ستاتی ہے
پھر تِری یاد گھیر کر مجھ کو
میری غزلیں مجھے سُناتی ہے
کوئی چارہ ہو غم شناسی کا
حل نکالو نا روح پیاسی کا
یہ بھی ہاڑا ہے دیوداسی کا
’’آؤ ماتم کریں اُداسی کا‘‘