اُسی ہجر کے پاس یادیں کثیر ہوتی ہیں
عارفوں کے ہاں تو حسرتیں بر صغیر ہوتی ہیں
تو اپنی صدا سے انہیں محو کیا کرے گا
قسمت کی لکیریں غیر متغیر ہوتی ہیں
اِن اجاڑ ویرانیوں سے دل نے بہلایا کر
یہ سنسان گلیاں تو بڑی دلگیر ہوتی ہیں
میں نے نگاہ سے نگاہ کو چراکر دیکھا ہے
کہیں آنکھوں کی حرکتیں بھی مُبِیر ہوتی ہیں
طبیعت کا جھکاؤ بھی حسب ضرورت نہ رہا
مگر ذوق ملن، کچھ رغبتیں امیر ہوتی ہیں
یہ دوریاں بھی کسے راس ہیں سنتوشؔ مگر
فرد کے ہاں اپنی مصروفیتیں زنجیر ہوتی ہیں