اُس دن کے روٹھ ہم سے خدا اور صنم گئے
جس دن سے یار ہم نہیں دیر و حرم گئے
لالے چمن کے سرد کیے ان خرائوں نے
جب سے بہارِ نو کے ہیں نقشِ قدم گئے
بزمِ ہنسی میں جس کا تماشا بنا رہا
وہ بدنصیب ہم تھے جو با چشمِ نم گئے
اک دن مری صدا پہ وہ باہر نہ آ سکا
محبوب کی گلی میں کہاں پھر سے ہم گئے
جن کے لئے ہے اوس ان آنکھوں میں ہر گھڑی
جانے کہاں وہ روٹھ کے میرے بلم گئے
بے ڈھنگ چلنے والے یہ کہتے ہیں نوجواں
قانون اور پہلے رواج و رسم گئے
تلوار لے کے آئے وہ ظالم جو سامنے
ہم بھی تو اپنے پیار کا لے کر عَلم گئے
اپنوں کی بدگمانیاں اس دل پہ جعفری
کچھ اس طرح بسی ہیں کہ ملنے ہی کم گئے