اُس شام سے کچھ منظر ڈھلتے دیکھے
یوں تنہائیوں میں بدن جلتے دیکھے
پیار کی تو کمریں اتنی مدہم نہیں
کئی جذبات کے دامن ٹوٹتے دیکھے
جبر رقیباں کے بعد یہ قہر خدائی
رفت قیامت میں چراغ بجھتے دیکھے
رواں یہ مسافت نازل کیئے بغیر
کچھ بے تعبیر مسافر چلتے دیکھے
اُس آنکھ میں بحر سا جو دیکھا
اپنے ہونٹوں کے ترش بھٹکتے دیکھے
عشق ترغیب کچھ پھسلاؤ ہے سنتوشؔ
توُ نے کس کے پاؤں سنبھلتے دیکھے