اُس نے راہ پھیرلی چلتے چلتے
بات پھر بگڑ گئی بنتے بنتے
وہ لمحہ تھا تو کیا سرُور تھا، ہر نین بھی وہیں مخمور تھا
سوچا کہ آگے چل کر سوچ لیں گے، اس کا کوئی حال پوچھ لیں گے
وہاں منزل مُڑ گئی ملتے ملتے
بات پھر بگڑ گئی بنتے بنتے
اُسے زیادہ چخ کی ضد تھی، مجھے اپنے رُخ کی ضد تھی
شاید کوئی نظر کا دھوکا تھا، یا ہوا کا چنچل جھونکا تھا
منظر ہی کھوگئے ہنستے ہنستے
بات پھر بگڑ گئی بنتے بنتے
زندگی کا یہ کیسا غرور تھا، کہ میرا عشق بھی مجبور تھا
دل کا سارا سکون لے گیا، جو دینا تھا ناموزون دے گیا
تھک گیا حساب گنتے گنتے
بات پھر بگڑ گئی بنتے بنتے
جو جستجو تھی بے قرار نکلی، یہ امید بھی تو بیزار نکلی
من نے کہا ہمزاد جوڑدو، اس نے کہا آزاد چھوڑ دو
ہم جدا ہوگئے لڑتے لڑتے
بات پھر بگڑ گئی بنتے بنتے