اُن کے ہونٹوں پہ جو ہنسی کم ہے
میری آنکھوں میں کیا نمی کم ہے
اب تو کلیاں بھی مسکراتی نہیں
اور شبنم میں بھی نمی کم ہے
اب تو پھولوں میں بھی نہیں خوشبو
آج کل اُن سے دوستی کم ہے
جب سے وہ چھوڑ کر گیا ہے مجھے
چاند کیوں تیری چاندنی کم ہے
ہجر کی رات اور اتنی طویل
کون کہتا ہے زندگی کم ہے
سچ تو یہ ہے مرے مقّدر سے
تری زلفوں کی تیرگی کم ہے
اتنی تو ہو کہ بھول جاؤں اسے
ساقیا یہ تو مے کشی کم ہے
اُن سے کرتے ہو رات دن باتیں
پھر بھی کہتے ہو بے خودی کم ہے
میں نہیں دیتا اُن کو پیمانہ
جن عزیزوں میں تشنگی کم ہے
ہم کسی سے جفا نہیں کرتے
دوستو ہم میں یہ کمی کم ہے
اُس نے مانگا ہے آج میرا لہو
کیسے کہہ دوں کہ یہ خوشی کم ہے
تیرے نورِ جمال کے ہوتے
چاند تاروں کی روشنی کم ہے
تیرے حسنِ خیال کے آگے
میں نے مانا یہ شاعری کم ہے
جب سے پھیری ہے تُو نے چشمِ کرم
دشمنوں کی بھی دشمنی کم ہے
اب بھی بیٹھے ہو اُس کے رستے میں
گرد چہرے پہ جو جمی کم ہے
تیری کڑوی کسیلی باتوں سے
میرے شعروں میں چاشنی کم ہے