اِسی لیے تو بدن تیرا اِنعکاس کیا
کہ زہر کو بھی ترے لمس نے مٹھاس کیا
نہ پوچھ ساعتِ جاں! انتقال کی لذت
بس ایک پل نے تناسخ ادا شناس کیا
کوئی بھی آئینہ دیکھوں دکھائی دے تُوہی
کچھ ایسے میں نے تری رُوح کو لباس کیا
ہر ایک لمحہ فنا پر ہی ختم ہونا تھا
نظامِ ہستی میں جب عشق کو اساس کیا
میں زخم زخم رہا پھر بھی مطمئن سا تھا
ترے کراہتے لہجے نے بد حواس کیا
جنوں نے رُوح کو جب خود سپردگی بخشی
تو خار کو کیا گُل، سنگ کو کپاس کیا
ہوائیں اوڑھ کے آئِیں جو دردِ جانِ سخن
تو لمسِ درد نے خوش وَرْد کو اداس کیا