اِس غرور عشق کو رہنے دو کہ اثر ہوتا رہے
تم میری نگاہوں میں رہو کہ گذر ہوتا رہے
سحر میں قہر بھی ہے عشق کا اصول
عاشقی میں ٹوٹنا اور بکھرنا بقدر ہوتا رہے
وہ دل کے مزاج ہیں کہ کہیں مانوس دِکھے
کوئی اپنے حال سا ملے طرز فکر ہوتا رہے
لگن میں لوگوں کو جو تماشا سوجھا ہے
اب چھوڑدو گلیوں میں کہ غدر ہوتا رہے
تیری ہی باتوں کو تجھ سے بھی کیا چھپانا
کون چاہتا ہے کہ خیالوں میں خدر ہوتا رہے
تیرا مقدر تجھے کہیں رسوا نہ چھوڑے سنتوشؔ
اگر میرے نصیب کی بات ہے تو چکر ہوتا رہے