وہ صورت ہی کچھ ایسی تھی
انمول ہیرے جیسی تھی !
میں عشق کرتا کیسے نہ !
میں اس پہ مرتا کیسے نہ
وہ صورت بھولی بھالی تھی !
وہ سارے جگ سے نرالی تھی
جب پہلی نگاہ ڈالی تھی
اس نے میری نیند چرالی تھی
اک پل میں کر گئی دیوانہ
وہ صورت تھی کچھ شاہانہ
وہ چھیڑ کے عشق کا افسانہ
وہ بنا گئی مجھ کو پروانہ
وہ صورت عجب صورت تھی
کوئی پرستان کی مورت تھی
میں اس کا ہو گیا دیوانہ
وہ میری ہی ضرورت تھی
اس صورت کا ہائے کیا کہنا
جیسے پھول نے حسن ہو پہنا
جیسے شیشے میں کوئی ہو گہنا
جیسے بہار سے حسن کا بہنا
اس صورت نے چین گنوایا ہے
مجھے ہر لمحہ تڑپایا ہے!!
وہ صورت دکھے تو کہہ دوں میں
وہ میری زندگی کا سرمایہ ہے