اٹھا کر طاق سے گلدان رکھ لیا گیا تھا
Poet: rakhshanda naveed By: rakhshandanaveed, lahoreاٹھا کر طاق سے گلدان رکھ لیا گیا تھا
 دوبارہ ملنے کا امکان رکھ لیا گیا تھا
 
 تمام دودھ کی نہریں وہ شیریں میوہ جات 
 فلک پہ کچھ مرا سامان رکھ لیا تھا
 
 نظارے اور بھی دیکھے تھے تیری ضرورت کو
 نظر اٹھانے کے دوران رکھ لیا گیا تھا
 
 قدم قدم تھے مقامات حیرت و حسرت
 سو دل کو پہلو میں حیران رکھ لیا تھا
 
 قلم نے کتنے ھی ابواب تلف کر ڈالے
 تمھارا ذکر تھا جانا رکھ لیا گیا تھا
More Love / Romantic Poetry






