اٹھا کر طاق سے گلدان رکھ لیا گیا تھا

Poet: rakhshanda naveed By: rakhshandanaveed, lahore

اٹھا کر طاق سے گلدان رکھ لیا گیا تھا
دوبارہ ملنے کا امکان رکھ لیا گیا تھا

تمام دودھ کی نہریں وہ شیریں میوہ جات
فلک پہ کچھ مرا سامان رکھ لیا تھا

نظارے اور بھی دیکھے تھے تیری ضرورت کو
نظر اٹھانے کے دوران رکھ لیا گیا تھا

قدم قدم تھے مقامات حیرت و حسرت
سو دل کو پہلو میں حیران رکھ لیا تھا

قلم نے کتنے ھی ابواب تلف کر ڈالے
تمھارا ذکر تھا جانا رکھ لیا گیا تھا

Rate it:
Views: 598
21 Apr, 2011