اٹھے بے رخیوں کے دھنواں کون جیئے گا
اِس بے مروت شہر میں کون رہے گا
مر تو نہیں سکتے مُکر تو سکتے ہیں
تیرے یوں بھی اعتراض کون سہے گا
دل دیکر بھی دکھ کیوں لاتی ہے
مرضی کے اخراج کو اب کون کہے گا
ہر لمحہ تو صعوبت کے ساتھ گذرا
اور نہ جانے کتنے دن مقدر دے گا
اذیت سے تنگ مزاج جو بھی ہیں
جیوں تو وہاں معیار کے ساتھ رہے گا
اپنی موت پہ دیکھیں گے پھر سنتوشؔ
کہ کس کس آنکھ سے دریاء بہے گا