زندگانی کی بھول بھلیوں سے
مشینوں کے گڑگڑاتے پہیوں سے
نکل کر رات کل جو کھویا میں
تو نکلا باغ کے اک کونے میں
اور ملاقات ہو گئی وہاں پہ
اداس اداس سے چند پھولوں سے
وہ سب شبنم سے آنسو رو رہے تھے
کسی صدمے سے پاگل ہو رہے تھے
میں نے دھیرے سے پوچھا اک گل سے
میں بھی جانوں معاملہ کیا ہے؟
پھول بولا یہ تو نہ سمجھے گا
قصہ ہے یہ ہمارے باغباں کا
جو مسیحا تھا ہمارے جہاں کا
روز آتا تھا وہ اس گلشن میں
اور آتا تو صحن گلشن میں
کلیاں جھوم اٹھا کرتی تھیں
ہوا کو چوم اٹھا کرتی تھیں
۔۔۔۔۔۔۔ مگر کل رات عجب منظر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں ایک محشر تھا۔۔۔۔۔۔
دھیما دھیما سا لگ رہا تھا مجھے
ٹھہرا ٹھہرا سا لگ رہا تھا مجھے
کبھی فولاد کی مانند تھا جو
ٹوٹا ٹوٹا سا لگ رہا تھا مجھے
جسکے لہجے میں عجب جادو تھا
سہما سہما سا لگ رہا تھا مجھے
جسکی آنکھوں میں بسے تھے جگنو
بجھا بجھا سا لگ رہا تھا مجھے
جسکی شوخی کے بہت چرچے تھے
کھویا کھویا سا لگ رہا تھا مجھے
جس پہ خوشیوں کو ناز رہتا تھا
رویا رویا سا لگ رہا تھا مجھے
ہر طرف روشنی تھی جسکے طفیل
سایہ سایہ سا لگ رہا تھا مجھے
جسکا ہر جملہ شاعرانہ تھا
پھیکا پھیکا سا لگ رہا تھا مجھے
جو سہارا تھا بہتی دھارا کا
ڈوبا ڈوبا سا لگ رہا تھا مجھے
وہ جو غنچوں میں کھویا رہتا تھا
غم کے سائے سے آشنا نہ تھا
حسن ہی حسن تھا جو سر تا پا
ہر سمے چاند بنا رہتا تھا
جھیل سی آنکھوں میں نجانے کیوں
بے کراں خواب اتر آئے تھے
ہائے وہ پر شباب ہونٹوں پہ
مسلے سے گلاب اتر آئے تھے
ہر سمے خشبوؤں میں رہتا تھا
تنہا تنہا سا لگ رہا تھا مجھے
جسکی مٹھی میں لفظ بستے تھے
قصہ قصہ سا لگ رہا تھا مجھے
جس سے روحیں سراب ہوتی تھیں
چھلکا چھلکا سا لگ رہا تھا مجھے
بات سن کر گلاب کی میں نے
گرتے اشکوں کو روکنا چاہا
پھول نے دیکھا تو حیران ہوا
مجھ سے کہنے لگا اداسی میں
میں تو شب کی سنا رہا تھا تمہیں
ایک ببتا بتا رہا تھا تمہیں
پھول کو ہاتھ سے سہلاتے ہوئے
کہا اے دوست ! کوئی بات نہیں
باتیں سن کر تمہاری آے پیارے
میری آنکھیں جو چھلک آئی ہیں
اس میں کوئی تمہارا دوش نہیں
یہ نہ کہنا کہ مجھے ہوش نہیں
رات دیکھا تھا تو نے جس کو یہاں
مجھے بس اس کا کچھ پتہ دے دے
کہآں سے آیا کہاں رہتا ہے
بس زرا اتنا مجھے بتلا دے
جانے کیا بات ہے اس اجنبی میں
اپنا اپنا سا لگ رہا ہے مجھے