اپنا سمجھا تھا مگر جان پہ بھاری نکلا
توُ بھی اوروں کی طرح پیار بپاری نکلا
تم سے ملنا ہی مقدر میں نہیں تھا ورنہ
جب بھی میں نکلا گلی یار تمھاری نکلا
عمر بھر میں نے جسے پوجا خداؤں کی طرح
آخرش وہ مری الفت سے بھی عاری نکلا
دل میں جذباتِ محبت نہ کسی کے بھی ملے
حُسن کا ویسے تو ہر گھر سے شکاری نکلا
اپنا گھر جس کلئے چھوڑ دیا تھا میں نے
دوست وہ میرے اثاثوں کا پجاری نکلا
جس کا قسمت میں ملن رب نے نہ لکھا تھا کبھی
جانے کیوں شخص وہی جان ہماری نکلا
کس کو میں آہ و بکا اپنی سناتا باقرؔ
جب مرے شہر کا ہر شخص مداری نکلا