اپنی آنکھوں کے ستاروں کو نہ مدہم کرنا
کچھ بھی ہو جاۓ نہ پلکوں کو کبھی نم کرنا
غم کا احساس نہ خوشیوں کی طلب ہے کویٔ
جب نہیں کچھ بھی تو پھر کس لیے ماتم کرنا
دِل ہی ٹوٹا ہے ذرا اور کویٔ بات نہیں
تم مری جان مزاج اپنا نہ برہم کرنا
لوگ کہتے ہیں محبت کو ذوال آتا ہے
تم کسی طور محبت نہ کبھی کم کرنا
اپنی ہستی کی الگ کویٔ نہ پہچان رہے
خود کو چاہا ہے تری ذات میں یوں ضم کرنا
جتنا شکوہ ہو تو اک پل میں مٹا دیتا ہے
کس سے سیکھا ہے بتا شعلوں کو شبنم کرنا؟
زخم تازہ ہیں ابھی تک غمِ تنہایٔ کے
ہم کو آیا نہ کبھی زخم کو مرہم کرنا